اڑیل گھوڑا۔ ایک ٹوٹکہ (منظوراحمد، احمد پور شرقیہ)
گھوڑے کا مزاج اور بندے کا مزاج ملتا ہے۔ گھوڑا انتہائی نفیس مزاج جانور ہے اور عام طور پر وہی چیز پسند کرتا ہے جو انسان پسند کرتا ہے مثلاً بادام، مربہ جات، گھوڑا بغض، کینہ یا ویر نہیں رکھتا اور کئی گھوڑے تو کاٹتے بھی ہیں اور یہ اصول ہے گھوڑا وہی کاٹتا ہے جو کوئی کام نہیں کرتا یا گھوڑا جس آدمی سے خار کھاتا ہے۔ اس کو کاٹنے کیلئے اس کے پیچھے دوڑ پڑتا ہے۔ ایک گھوڑا سخت مزاج تھا۔ جو میرے بیٹے کو کاٹنے کیلئے دوڑتا تھا لیکن مجھے کچھ نہیں کہتا تھا۔ جو گھوڑا کاٹتا ہو اس کا ٹوٹکہ یہ ہے کہ ایک بینگن ہر وقت گرم گرم تیار رکھیں جب کاٹنے کیلئے منہ کھولے تو وہ گرم بینگن اس کے منہ میں دے دیں آئندہ نہیں کاٹے گا۔
دوسرا ٹوٹکہ یہ ہے کہ ایک عدد روٹی لے لیں، وہی روٹی ساری رات بغل میں رکھ کر سوجائیں، روٹی بغل میں رہے اور صبح وہ روٹی اس کاٹنے والے یا اڑیل گھوڑے کو کھلادیں۔ نہ ہی کاٹے گا اور نہ ہی اڑیل بنے گا۔ کیونکہ وہ انسان کی مخصوص بو سونگھ لیتا ہے اور روٹی کھانے کے بعد انسان کا دوست بن جاتا ہے جب تک اسے روٹی کھلاتے رہیں گے آپ کا دوست رہے گا۔ اگر وہ گھوڑا بہت ہی اڑیل ہو تو اس گھوڑے کو قبرستان میں تین دن باندھ دیں اڑی نہیں کریگا یا پھر گھوڑے کو تانگہ میں جوت کر تین دن اور تین راتیں مسلسل کھڑا رکھیں بالکل اڑی نہیں کرے گا۔
والد صاحب کے پاس لوگ اڑیل گھوڑے لیکر آتے تھے وہ ان کے پاس جاکر کان میں کچھ پڑھ کر پھونک مارتے تھے اور گھوڑا اڑی کرنا چھوڑ دیتا تھا۔ میں نے ایک دن ڈرتے ڈرتے والد صاحب سے پوچھا کہ آپ کان میں کیا پڑھتے ہیں والد صاحب خاموش ہوگئے، پھر میں نے والدہ صاحبہ سے منت کی کہ والد صاحب سے پوچھ کر بتائیں کہ کیا پڑھتے ہیں۔ والدہ صاحبہ کے کہنے پر والدہ صاحب نے بتایا کہ سب سے پہلے درودشریف پڑھتا ہوں ”پھر کہتا ہوں تم غازی ہو میں بھی غازی مرد ہوں آئندہ اڑی نہ کرنا،، یہ کہہ کر کان میں پھونک مار دیتا ہوں اور گھوڑا آئندہ اڑی نہیں کرتا۔ سب سے حیران کن بات ایک بزرگ کے حوالے سے سنائی کہ اُس بزرگ کے والد صاحب کے پاس ایک گھوڑا تھا وہ گھوڑا کبھی کبھار اڑی کرتا تھا۔ ان کا نوکر گھوڑے کو مارتا نہیں تھا بلکہ اپنی پگڑی اتار کر گھوڑے کے آگے رکھ دیتا تھا اور کہتا تھا کہ میری عزت اس کے پاس ہے اور گھوڑا فوراً چل پڑتا تھا اور اڑی نہیں کرتا تھا۔
قارئین! اڑیل گھوڑے کو سدھارنے کے گُر ہیں کہیں منت کرکے، کہیں پگڑی اتار کر سامنے رکھ کر اور کبھی تین دن مسلسل جگا کر سدھایا جاتا ہے کیا ہم نے کبھی اپنے اندر کے منہ زور اور اڑیل گھوڑے کو سدھارنے کی کوشش کی ہے؟؟؟
ایک درس نے زندگی بدل دی (شہناز کوثر، گجرات)
31 مئی بروز اتوار کا دن بھی کیا دن تھا، کہنے کو تو وہ اک عام دن تھا مگر نہ جانے کتنے ہی دلوں کو بدلنے والا وہ دن تھا۔ میں بھی عام اک عام معمول کے مطابق چھٹی کی مصروفیات میں گم تھی کہ اچانک میری دوست کا فون آیا کہ حضرت حکیم صاحب کی آج آمد ہے بشیر میرج ہال میں تو مجھے اور میرے شوہر کو بھی دعوت دی بلکہ ضروری التماس کیا۔ میرا جانے کا کوئی خاص ارادہ نہ تھا مگر اس کی ناراضگی کی خاطر جانے کی ہامی بھر لی جب وہاں گئی۔ ہال میں داخل ہوئی تو پردے کا انتظام تھا۔ نظر تو کچھ نہ آیا:
زبان سے وہ تیر نظروں کے بنا کر دل پہ چلا گیا
کافی لوگ ہال میں تشریف فرما تھے، ذکر کا بیان جاری تھا، میرے ہاتھ میں کچھ نہ تھا، نہ کاپی نہ پنسل، مگر دل نے چاہا کہ کاش میں بھی کاپی پنسل لے آتی، جلدی میں یاد ہی نہ رہا، اس خیال کا آنا ہی تھا کہ میری اُس دوست نے اپنی ڈائری اور پنسل مجھے تھما دی لو ذرا مجھے لیکچر لکھ دو، میں خوش ہوگئی، پھر حضرت حکیم صاحب کا بولنا تھا اور میرے ہاتھ کا لکھنا تھا۔ بڑی سپیڈ سے میں نے ہر ہر لفظ نوٹ کیا۔ ہر بات دل میں اترتی گئی، معلوم نہیں یہ اُن کے طرز بیان کا کمال تھا یا میرے من کی پیاس تھی، جو قطرہ قطرہ الفاظ میں بجھتی گئی، ذکر کے بیان نے دل کی کافی گرد اتار دی تھی۔ خاک کے ڈھیر سے اک چنگاری نمودار ہوگئی تھی کہ اُسی وقت ارادہ کرلیا ذکر کبھی نہ چھوڑوں گی یہاں تک کہ روح جسم سے آزاد ہوجائے۔
اُس کے بعد صدقہ کا بیان سنا جو زندگی میں قسم خدا کی پہلی بار اس انداز سے سنا۔ صدقہ کا ایسا طریقہ کار پہلی بار کسی زبان سے سنا بے حد سرور آیا۔ 2 بجے تک کا وقت گزر گیا معلوم نہیں کیسے گزرا، آکر احساس تک نہ ہوا، نہ بوریت کا احساس، نہ اکتاہٹ کا احساس، دل یہی کرتا تھا کہ حکیم صاحب بولتے جائیں اور میں لکھتی جائوں اور ہر بات میں نے دل کی کتاب پر اتار لی۔ پھر سوچا اگر اس محفل میں نہ آتی تو ساری زندگی پچھتاوا رہتا۔ آئی تو کسی کی خاطر تھی مگر کام اپنا بن گیا۔ وہ لیکچر میں نے کئی دوستوں، رشتہ داروں، ہمسائیوں غرض کہ جو بھی ملتا ہے اُسے پڑھاتی ہوں، کافی لوگوں نے فوٹوکاپی طلب کی ہر کسی کو بے حد پسند آیا۔ وہ تھا ہی منفرد انداز اور منفرد طرز بیان۔ گھر آکر پہلا کام پانی کے صدقے کا کیا اور جس مقصد کیلئے کیا صبح اُس کو پورا پایا۔ حیرت ہوئی کہ مسئلہ اتنی جلدی صدقہ کے ذریعے حل ہوا کہ ناقابل بیان ہے۔ وضائف، تین گھونٹ پانی والا عمل، سورة الکوثر بھی اُسی طرح پڑھنا شروع کردی۔ اتنی جلدی عمل کیا اور بہت فائدہ حاصل ہوا۔
پہلی بار دیکھا کہ ہال میں عورتیں بڑی دلچسپی اور خاموشی سے درس سن رہی ہیں، نوٹ کررہی ہیں، زیادہ خواتین سکول و کالج سے تعلق رکھتی تھیں، پڑھا لکھا طبقہ ہی زیادہ نظر آیا۔
میری تو دعا ہے کہ حکیم صاحب ہم غریبوں کے آستانے پر آتے رہیں اور ہمیں اپنے اعمال پر نظرثانی کراتے رہیں اور اپنے تجربات اور مشاہدات سے مستفید کرتے رہیں۔
سبحان اللہ خان والا عمل اور دو انمول خزانے کی برکتیں (مریم، طالبہ بی ایس سی آنرز)
اول وآخر تین دفعہ درود پاک سورة الفاتحہ ایک بار پھر تین دفعہ سورة الاخلاص والے وظیفہ میں نے ہرجگہ آزمایا ہوا ہے۔ زندگی میں مجھے جو بھی مشکل پیش آتی ہے میں اس عمل سے حل کرلیتی ہوں، خاص طور امتحان میں، پیپرز میں۔
میں نے ہر پیپر میں یہ وظیفہ پڑھا جو سوال یاد کیا ہوا تھا صرف وہی آیا۔ خاص طور پر میں نے شام کو سیکنڈ ٹائم مطالعہ پاکستان کا پیپر دے کر آئی، صبح میرا اکنامکس کا پیپر تھا، B.A کی اکنامکس میں میتھ کا پورشن علیحدہ ہوتا ہے ساتھ تھیوری کا پورشن بھی ہوتا ہے گجرات یونیورسٹی میں ساتھ سٹیٹ پورشن بھی ہے۔ میں نے میتھ پورشن میں صرف ایک باب طلب و رسد کی توازنی مقدار اور سٹیٹ پورشن میں سے صرف ایک چپٹر کیا اور تھیوری کے صرف دو باب میں سے کچھ سوال کیونکہ ایک رات تھی اور ٹائم اتنا نہیں تھا اور اللہ کے فضل سے اسی میں سے تمام پیپر آگیا اور دوسرے پیپرز میں بھی پیپر آگیا تھا۔
دو انمول خزانے
میرا بھائی بہت خراب تھا، انتہائی بدتمیز تھا، پیپرز میں گھر سے بھاگ بھی جاتا، مگر دو انمول خزانے میری امی نے پڑھے، میرا بھائی بہت سدھر گیا حتیٰ کہ اب اے لیول کررہا ہے اور ہم لوگوں سے زیادہ امی ابو کی عزت کرتا ہے، ڈاڑھی بھی رکھ لی ہے اور صحیح اسلامی رستے پر چل نکلا ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 506
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں